Dubai History دبئی تاریخ



 تاريخ دبئی


ء 1833میں بنی یاس قبیلے سے تعلق رکھنے والے تقریبا 800 افراد مکتوم خاندان کی سربراہی میں خلیج کے دہانے پر آ کر آباد ہوئے  خلیج ایک قدرتی بندر گاہ تھی اور دبئی جلد ہی ماہی گیری ، ہیروں اور سمندری تجارت کا مرکز بن گیا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک دبئی ایک کامیاب بندرگاہ بن گئی تھی۔ اس ؤقت  ڈئیرا کی جانب خلیج کی سوق (عربی زبان میں بازار) ساحل سمندر پر سب سے بڑی مارکیٹ تھی جس میں 300 دکانیں تھیں جن پر سیاحوں اور کاروباری لوگوں کا مسلسل ہجوم رہتا تھا۔ 1930 تک دبئی کی آبادی تقریباً 20،000 تھی جن میں چوتھائی حصہ تارکین وطن لوگوں کا تھا۔ 1950 کے عشرے میں خلیج تہ نشین گاد اور کیچڑ سے بھرنا شروع ہو گئی جو کہ غالباً بحری جہازوں کے بڑھتی ہوئی تعداد میں بندر گاہ کو استعمال کرنے سے ہوا۔.....
  مرحوم حاکم دبئی شیخ رشید بن سعید المکتوم نے خلیج کی اس گزرگاہ کو کھود کر گہرا کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک مہنگا اور دوراندیش منصوبہ تھا۔ اس کاروائی کے نتیجہ میں دبئی میں نجی جہازوں کے کنٹرول کی استعداد میں اضافہ ہوا۔ نتیجتاً اس نے دبئی کو ایک بڑے تجارتی اور دوبارہ ایکسپورٹ ہونے والی اشیاء کے مرکز کی حیثیت سے نئی قوت عطا کی ۔

 1994
میں تیل کی دریافت کے بعد تیل کی آمدنی کو شیخ راشد نے دبئی کی ترقی کے لیئے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کے لئے استعمال کیا۔
دبئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ میں ایک نئی پورٹ اور ٹرمینل بلڈنگ تعمیر کی گئی۔ رن وے کے وسعت کے منصوبہ کی تکمیل قابل عمل آئی تاکہ ہر قسم کے جہازوں کی نقل وحمل کو برداشت کر سکے۔ دنیا میں انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی سب سے بڑی بندرگاہ جبل العلی کے مقام پر تعمیر کی گئی اور بندرگاہ کے گرد فری زون بنایا گیا۔ اب دبئی کی تعمیر کے فارمولہ کا انکشاف ہر ایک پر واضع ہونے لگا۔ ایک واضح تصور والی قیادت – اعلٰی معیاری بنیادی ڈھانچہ ، نوآبادیوں کے لئے دوستانہ ماحول، ذاتی اور کاروباری منافع پر صفر ٹیکس اور بہت کم درآمدی ڈیوٹی۔ نتیجتاً دبئی، مصر سے لے کر برّ صغیر اور جنوبی افریقہ سے لے کر اب سی آئی ایس کہلانے والے ممالک تک پھیلے ہوئے خطے کا ، تجارتی اور سیاحی مرکز بن گیا۔
    متحده عرب امارات كا قيام
 1940 
سے شیخ زید بن سلطان النہیان نے جو کہ اس وقت ابوظھبی کےحاکم تھے اور شیخ رشید بن سعید المکتوم نے اس خطے میں عرب امارات کی ایک فیڈریشن بنانے کا خواب دیکھا تھا۔ 1970 میں جب دوبئی، ابوظہبی، شارجہ ، عجمان، ام القوین ، فجیرہ اور 1972 میں راس الخیمیہ، متحدہ عرب امارات بنانے کے لئے متحد ہوئے تو ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔
شیخ زاید جو کہ یو اے ای کے پہلے صدر تھے اب تک یہ پوزیشن سنبھالے ہوئےتھے۔ ان کی سربراہی میں یو اے ای دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ملک بن چکا ہے۔ جس کا سالانہ فی کس جی ڈی پی 17000 امریکی ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا ہوا ہے۔
 تہذیب و تمدن
دبئی شہر کا خلا سے منظردبئی کی تہذیب و ثقافت کی جڑیں اسلامی روایات سے جا کر ملتی ہیں اور دبئی کے باشندوں کے طرز زندگی کی مظہر ہیں۔ تاہم امارات ان غیر ملکیوں کا جو مذہب اسلام کے پابند نہیں، احترام کرتا ہے اور ان کو خوش آمدید کہتا ہے۔ بیرونی تارکین وطن اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں مکمل طور پر آزاد ہیں اور وہاں کوئی بھی لباس پہننے کی آزادی ہے۔ یہاں خواتین سے تفریقی سلوک نہیں کیا جاتا۔ خوش اخلاقی اور مہمان نوازی دبئی کی لاتعداد خوبیوں میں سے ایک ہے۔ حاکمین وقت اپنی ثقافت کو قائم رکھنے میں بہت مستعد ہیں اور اس کے لئے انہوں نے کئی عملی اقدامات کئے ہیں۔ ان میں سے ایک اپنے ماضی کے عکاس کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ باز سے شکار، اونٹوں کی دوڑ اور تکونے بادبانوں والی کشتیوں کی تیراکی ابھی بھی دبئی میں بہت مقبول ہے۔
ملک کی سرکاری زبان عربی ہے۔ لیکن اکثر لوگ دفتروں سے باہر انگریزی میں بات چیت کرتے ہیں۔ مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگ دبئی میں رہتے ہیں اور انگریزی کو روز مرہ کی بات چیت میں ایک مشترکہ زبان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اکثر سڑکوں اور دکانوں کے سائن بورڈ اور ہوٹلوں کے مینو عربی اور انگریزی دونوں میں لکھے ہوتے ہیں۔
امارات کے مقامی لوگ عموماً روائیتی لباس استعمال کرتے ہیں۔ مرد حضرات سفید لمبا چوغہ <ڈشڈشا یا کھندورا> اور اس کے ساتھ سفید یا سرخ چیک والا رومال <کترا> پہنتے ہیں۔ عوامی مقامات پر خواتین عبایا، ایک کالے رنگ کا برقعہ ، جو ان کے عام لباس کو ڈھانپ لیتا ہے ، استعمال کرتی ہیں۔ وہ اپنے سروں کو سکارف سے بھی ڈھانپتی ہیں۔
سیاحوں کی فوٹو گرافی قابل قبول ہے اور ان سے تمام خوبصورت چیزوں کی تصویر کشی کی توقع کی جا تی ہے۔ عام طور پر لوگوں کی تصویر اتارنے سے پہلے ان سے پوچھنا ایک مہذب طریقہ خیال کیا جاتا ہے جبکہ حکومتی عمارتوں ، فوجی تنصیبات بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کی تصویر کشی سے اجتناب کرنا چاہئے۔ مسلمان عورتوں کی تصویر لینا ناپسندیدہ خیال کیا جاتا ہے۔
عربی کھانے پکانے کے طریقے مختلف اقسام اور مختلف ممالک ، مثلاً مراکش، شام، افغانستان، لبنان، تیونس اور دوسرے کئی ممالک سے اخذ کئے جاتے ہیں۔ پورے شہر میں دکاندار شوارمہ بیچتے ہیں، اس کی تیاری میں دنبہ یا مرغی کے گرم روسٹ ہوتے ہوئے گوشت سے قتلے کاٹ کر سینڈوچ میں لگائے جاتے ہیں اس کے علاوہ اس میں سبزیاں بھی لگائی جاتی ہیں۔ تاذہ جوس کے دکانداروں کو کسی بھی قسم کے تاذہ جوس مثلاً انناس ، کیلا، آم، یا مکس کاک ٹیل کا آرڈر دیا جا سکتا ہے۔شراب صرف لائسنس شدہ ریسٹورنٹس یا باروں پر ہی فروخت کی جاتی ہے۔ یہ کچھ تفریحی کلبوں میں بھی دستیاب ہے۔ زیادہ تر اقامتی یا کاروباری مقامات پر شیشہ پائپ سے اسموکنگ کی جاتی ہے۔ یہ پانی کے روائتی پائپ ہوتے ہیں جس میں سٹرابری اور سیب کی خوشبو والا تمباکو استعمال کیا جاتا ہے۔ عموماً کیفے یا ریسٹورنٹ میں بیٹھنے کے دوران شیشہ سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔


 سیاحتی مرکز
جزائر نخیل، دبئی کا عظیم الشان رہائشی و سیاحتی منصوبہاوائل 1990ء میں دبئی نے صحتمند اور اعلٰی سیروسیاحت کا بین الاقوامی مرکز بن کر ابھر کر عملی طور پر سامنے آنے کا اصولی فیصلہ کیا۔ اس فیصلہ کے بعد سیروسیاحت پر کئے جانے والے اخراجات نے پہلے سالوں سے بہت زیادہ منافع دیا۔2000 میں مہمانوں کی تعداد حیران کن طور پر تین ملین تک پہنچ گئی جو کہ دبئی کی آبادی 850000 سے بھی تجاوز کر گئی۔
دبئی اب ایک ایسا شہر ہے جس کے قابل فخر ہوٹلوں، اعلٰی معماری صنعت، دنیا کی بہترین مہمان نوازی او کھیل کی تفریحات کا کوئی ثانی نہیں ہے۔جمیرہ کے کنارے واقع خوبصورت برج العرب ہوٹل دنیا کا واحد سیون سٹار ہوٹل ہے۔امارات ٹاور ان بےشمار عمارات میں سے ایک عمارت ہے جو اس تیزی سے بڑھتے ہوئے شہر میں تجارتی اعتماد کا احساس دلاتی ہے۔ 350 میٹر بلند آفس ٹاور مشرق وسطی اور یورپ کی سب سے بلند عمارت ہے۔ دبئی میں کھیلوں کے بڑے بین الاقوامی مقابلے بھی ہوتے ہیں۔ دبئی ڈیزرٹ کلاسک پروفیشنل گالف ایسوسی ایشن ٹور میں ایک اہم مقام کا حامل ہے۔ دبئی اوپن، ایک اے ٹی پی ٹورنامنٹ، دبئی ورلڈ کپ ، دنیا کی مہنگی ترین گھڑدوڑ ہر سال ہزاروں شائقین کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

دبئی کا مشہور عالم "برج الخليفه"  کو دنيا كي سب سه بلند عمارت كها جاتا هه  

دبئی

 "مشرق وسطی کا شاپنگ دارالخلافہ" کہا جاتا ہے۔ اتنے زیادہ شاپنگ مال اور بازاروں کی موجودگی میں مصنوعات کی ناقابل سبقت قیمت ڈھونڈنے کے لئے اس سے بہتر جگہ نہیں مل سکتی ہے۔
دکاندار اپنی اشیاء کی قیمتیں ایک دوسرے کے مقابلے میں کم کر کے لگاتے ہیں۔ بہت کم درآمدی ڈیوٹی اور ٹیکس کے بغیر شاپنگ کی وجہ سے اشیاء سستے داموں دستیاب ہیں۔ سونا، زیورات، اعلٰی فیشن ، الیکٹرونکس، قالین اور ہاتھ کی بنی ہوئی اشیاء اتنی حیرت انگیز کم قیمت پر ملتی ہیں جن کی نظیر دنیا میں کہیں بھی اور نہیں ۔ دبئی کے بے شمار شاپنگ کے مراکز ہر قسم کے گاہک کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ گاڑیاں، ملبوسات ، زیورات، الیکٹرانکس، فرنشنگ، کھیلوں کا سامان اور کئی دوسری اشیاء آپ کو ایک ہی چھت کے نیچے دستیاب ہو سکتی ہیں۔
دبئی کے بازاروں کی سیر بہت سنسنی خیز ہے۔ شاپنگ کے تمام اس عرصے میں بازاروں کا سرگرم ماحول ، روائیتی انداز اور قیمتیں طے کرانا خریداروں کو مستعد رکھتا ہے۔
 ذرائع نقل و حملدبئی ایک ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں جانے کے لئے یورپ افریقہ اور ایشیا کے بڑے بڑے شہروں سے ہوائی پروازیں سیدھی دبئی کو جاتی ہیں۔ دبئی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا دنیا کے دس چوٹی کے ہوائی اڈّوں میں شمار ہوتا ہے اور اب اس کی گنجائش سالانہ 14 ملین افراد کی نقل و حمل کیلئے کافی ہے۔ اب اس گنجائش کو 70 ملین تک لے کر جانے کا منصوبہ ہے۔ دبئی ہوائی اڈے کے دو ٹرمینل ہیں جو کہ ہوائی اڈّے کی مخالف سمت میں قائم ہیں۔ وہاں پر کرائے کی گاڑیاں ، ہوٹل کی بکنگ اور کرنسی کے تبادلے کی سہولیات بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ ڈیوٹی فری شاپس آنے اور جانے ، دونوں ہالوں میں قائم کی گئی ہیں۔ دبئی انٹرنیشنل ائرلائن ٹریول ایجنسی کی عمارت میں دبئی میں موجود تمام فضائی کمپنیوں کے دفاتر موجود ہیں۔


اضافی معلوماتبجلی: بجلی کی سپلائی ۲۲۰/۲۴۰ وولٹ اور ۵۰ سائیکل کی ہوتی ہے۔
پانی: نلکے کا پانی پینے کے لئے بالکل محفوظ ہے۔ لیکن کچھ سیّاح عموماً بوتلوں کے پانی کو پسند کرتے ہیں۔ یہ پانی زیادہ تر ہوٹلوں او ریسٹورنٹوں میں پیش کیا جاتا ہے۔
ٹیلیفون: دبئی کے اندر اور باقی دنیا کے ساتھ مواصلات کا بہترین نظام استوار ہے۔ دبئی کے اندر ٹیلیفون کالیں مفت ہیں۔ موبائل کا سٹینڈرڈ جی ایس ایم ہے۔
فوٹوگرافی: عام سیّاحتی فوٹوگرافی کی اجازت ہے۔ مسلمان عورتوں کی تصویر لینا سخت ناپسندیدہ خیال کیا جاتا ہے۔اسی طرح مردوں کی تصویر اتارنے سے پہلے ان سے پوچھنا ایک مہذب طریقہ خیال کیا جاتا ۔
بینک: دبئی میں اکثر بین الاقوامی بینکوں کی شاخیں قائم کی گئی ہیں جو کہ انفرادی اور اجتماعی کاروبار کی ضرورت پوری کرتی ہیں۔ رقوم کا انتقال آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ زرمبادلہ پر کنٹرول درحقیقت بالکل مفقود ہے اور درہم آسانی اور آزادی سے تبدیل کئے جا سکتے ہیں۔ بنکوں کے اوقات ۰۸:۰۰ سے ۱۳:۰۰ ہفتہ سے بدھ تک ہوتے ہیں۔ کچھ بنک ۱۶:۳۰ سے ۱۸:۳۰ تک کھلے رہتے ہیں۔ جمعرات کے دن بنک ۰۸:۰۰ سے ۱۲:۰۰ بجے تک کام کرتے ہیں۔
مقامی وقت: یو اے ای کا مقامی وقت جی ایم ٹی سے تین گھنٹے آگے ہے۔
موسم: دبئی کا موسم منطقہ حارہ سے ملاجلا اور خشک ہے۔ بارش کبھی کبھار ہوتی ہے جو کہ عام طور پر موسم سرما میں پانچ دن تک ہوتی ہے۔
تقریبات: دبئی میں دنیا کی مشہور کھیلوں اور تفریحی تقریبات کا انتظام کیا جاتا ہے۔ جو کہ خاص طور پر نومبر سے مارچ تک ہوتی ہیں۔ دبئی شاپنگ فیسٹیول کے دوران دبئی میں تین بہت ہی اعلٰی معیار کی تقریبات کی میزبانی کی جاتی ہے: دبئی ڈیزرٹ کلاسک، پروفیشنل گاف ایسوسی ایشن(PGA) کا ایک سٹاپ ہے – دبئی اوپن جو کہ ایک اے پی ٹی کی تقریب ہے اور دبئی ورلڈ کپ جو کہ دینا کی امیر ترین گھڑدوڑ ہے۔
جرائم: دبئی عام طور پر ایک محفوظ اور نہایت دوستانہ شہر کہا جاتا ہے۔ وہاں جرائم بہت کم ہیں ۔سیّاحوں اور مقامی لوگوں کو آدھی رات تک بھی چہل قدمی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
مہم جوئی: جن لوگوں کی زندگی ہیجان انگیزی کے ارد گرد گرد گزرتی ہے ان کے لئے دبئی میں بنجی جمپنگ، سکائی ڈائیونگ ، پیرا گلائیڈنگ، موٹو کراس، واٹر سپورٹس، ماونٹینرنگ اور کئی دیگر سہولیات دستیاب ہیں۔
ڈرائیونگ لائسنس: یو اے ای کا مستقل ڈرائیونگ لائیسنس رہائیشی ویزا کی گرانٹ کے بعد ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مختلف ممالک کے ڈرائیونگ لائسنس کے حامل لوگ یو اے ای کے اندر کار کرائے پر لے کر چلا سکتے ہیں۔ تاہم کار کو کرائے پر دینے سے قبل لائسنس چیک کیا جاتا ہے